قربانی کی فضیلت اور مسائل

 حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس بندے  استطاعت کے باوجود قربانی نہیں کی تو ہو ہمارے عید گاہ کو قریب نہ ائے۔




اسی طرح کئی دیگر روایتوں میں قربانی کرنے کے فضائل اور نہ کرنے پر وعیدات بیان کی گئی ہیں،جیسے کہ ایک اور روایت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالی کو قربانی کی دین تمام عملوں میں سے سب سے بہتر عمل جانور کا خون بہانا ہے اور قیامت کی دین بندہ اپنی قربانی کی سینگوں ، چمڑے اور بالوں کے ساتھ حاضری کرے گا۔اور قربانی کی خون گرنے سے پہلے قبول ہو جاتی ہیں۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں 10 سال گزاری اور ان دس سالوں میں انہوں نے مسلسل قربانی کی۔


ایک روایت میں ہے کہ صحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ قربانی کیا چیز ہے؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تمہارے باپ دادا ابراھیم علیہ الصلوۃ والسلام کا طریقہ ہے،صحابہ نے عرض کیا ہمیں اس میں کیا ثواب ملے گا؟

تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر بال کے بدلے میں نیکی ہے،تو انہوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ اگر بکری نہیں بلکہ دنبہ قربان گیا تو اس کے بالوں کا بھی یہی حکم ہے؟

تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ ہاں اس کے بالوں کا بھی یہی حکم ہے یعنی ہر بال کے بدلے میں ثواب ہے۔


تو معزز قارئین اپ نے قربانی کے چند فضائل پڑھیں،اب بڑھتے ہیں قربانی کی چند مسائل کی طرف جو ہر مسلمان کے لیے اور قربانی کرنے والے کے لیے یاد کرنا لازمی ہیں۔


قربانی کے مسائل 

  • مسافر پر قربانی لازم نہیں ہے۔
  • قربانی کے وقت زبان پر نیت کرنا یا دعا پڑھنا ضروری نہیں ہے بلکہ دل میں قربانی کا خیال کرنا اور یہ خیال لانا کہ میں قربانی کرتا ہو اور زبان پر صرف بسم اللہ اللہ اکبر کہنا کافی ہیں۔
  • جو جانور اندھا یا کانا ہو، اس کی قربانی صحیح نہیں ہے۔
  • جس جانور کے کھان کاٹ دیا گیا ہو تو اس کی قربانی بھی صحیح نہیں ہے۔
  • جو جانور لنگڑا ہو اور اس کی پاؤں ایسا ہو کہ اس کو زمین پر نہیں لگا سکتے ہو، تو اس جانور کی بھی قربانی صحیح نہیں ہے۔
  • جس جانور کے دانت  بالکل نہیں ہو،اس کی بھی قربانی جائز نہیں ہے۔
  • جس جانور کی پیدائشی طور پر کان بلکل نہیں ہوتے ہیں تو اس کی بھی قربانی صحیح نہیں ہے۔
  • قصائی کو مزدوری کے طور پر قربانی کے جانور کی گوشت یا کھال یا چربی نہیں دے سکتے ہیں۔
  • قربانی کی گوشت خود کھائیں گے، اپنی رشتہ داروں اور فقیروں کو دیں گے،اور بہتر یہ ہے کہ اس کا تیسرا حصہ صدقہ کر دیا جائے غریبوں کو،لیکن اگر کسی نے تھوڑا سا خیرات کر دیا پھر بھی جائز ہیں۔
  • قربانی کے لیے اونٹ کا عمر کم از کم پانچ سال،گائی بھینس کا دو سال،دنبہ اور بکری کا عمر ایک سال ہونا ضروری ہے،البتہ اگر دنبہ کا عمر ایک سال سے کم ہے یا چھ مہینے ہے لیکن اس کا جسم ایسا لگ رہا ہے جیسے کہ ایک سال کا ہو تو اس سی بھی قربانی جائز ہے۔
  • اگر قربانی کی وقت قربانی کے لیے خاص شدہ جانور گر گیا اور اس کے ٹانگ ٹوٹ گئی، یا اس میں کچھ اور عیب پیدا ہو گئے عین قربانی کے وقت، تو اس سے قربانی ہو سکتی ہیں جائز ہے۔
  • قربانی کا وقت دسویں ذوالحجۃ کی طلوع افتاب سے لے کر 12 ذوالحجۃ کہ غروب افتاب تک ہیں۔

تو یہ تھی قربانی کی چند اہم مسائل،اور فضائل جو ہم نے بیان کی ۔


اللہ رب العزت سے دعا گو ہوں کہ اللہ تعالی ہمارے قربانیاں اور اعمال قبول فرمائے امین۔



Post a Comment

Previous Post Next Post