طلاق کیا ہوتی ہیں؟
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات دین اور قانون ہے، اس نے ہر معاملے کو حل کرنے کی بہترین احکامات صادر کی ہیں۔اس میں ایک طلاق ہے۔
جب کسی میاں بیوی کے درمیان زندگی گزارنا مشکل ہو جائے تو خاوند کو اجازت ہوتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے کر جدا کرے۔
اور اگر بیوی کو زندگی گزارنا مشکل ہو تو بیوی اپنے خاوند سے طلاق کا مطالبہ کر سکتی ہیں۔
لیکن اس میں کچھ خاص شرائط ہوتے ہیں جن کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔
لیکن یاد رکھیں کہ شریعت کبھی بھی کسی شوہر کو یا بیوی کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ بلا وجہ تنگ کرنے کے لیے طلاق دے یا طلاق کا مطالبہ کرے۔
حضرت ثوبان رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس عورت نے اپنے شوہر سے بلا ضرورت طلاق مانگی تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہوا۔
تو اس لیے اس معاملے میں انتہائی احتیاط کرنا چاہیے اور شوہر کو بھی چاہیے کہ وہ طلاق کے معاملے میں محتاط رہے ، کیوں کہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں "کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مباح چیزوں میں اللہ تعالی کے نزد مبغوض ترین چیز طلاق ہے۔"
اور اس معاملے میں گپ شپ و مذاق بھی نہیں کرنی چاہیے،کیونکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین چیزیں ہیں جس میں قصد کرنا بھی قصد ہوتا ہے اور اور ہنسی مذاق میں منہ سے نکالنا بھی قصد ہوتا ہے، نمبر ایک نکاح نمبر دو طلاق نمبر تین رجعت۔
اور بالکل اسی طرح حضرت امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک بندہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا کہ "میں نے اپنی بیوی کو 100 طلاق دی ہیں اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟"
حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ وہ تین طلاقوں کی ذریعے طلاق ہو گئی ہیں۔ اور جو 97 طلاقیں باقی ہیں اس کی ذریعے اپ نے خدا تعالی کی آیاتوں کا مذاق بنایا۔
چلیں اب طلاق کے بارے میں کچھ اہم مسائل کے بارے میں بحث کرتے ہیں، اور کچھ ضروری مسائل ترتیب وار لکھتے ہیں:
مسئلہ نمبر 1:
اگر کسی نے کسی انسان پر دباؤ ڈالا اور اس کو مارنے کے دھمکی دی اور کہا کہ اپنی بیوی کو طلاق دو، ورنہ تجھے ماروں گا۔اور اس نے اپنی بیوی کو طلاق دی تو یہ طلاق واقع ہو گئی۔
مسئلہ نمبر 2:
اگر کسی نے اپنی بیوی کو شراب کے نشے کی حالت میں طلاق دی تو یہ طلاق بھی واقع ہو گئی۔
مسئلہ نمبر 3:
اگر کسی بندے نے اپنی بیوی کو غصے یا خوشی کی حالت میں طلاق دی تو دونوں طرح کے طلاق واقع ہو گئی۔
مسئلہ نمبر4:
شوہر کے علاوہ کسی کو طلاق دینے کی اختیار نہیں ہے البتہ اگر شوہر نے کسی کو کہا کہ میری بیوی کو میری طرف سے طلاق دے دو اور اس نے طلاق دے دیا تو یہ واقع ہو گئی۔
مسئلہ نمبر5:
اگر بیوی کو منظور ہو یا منظور نہ ہو لیکن اگر شوہر نے طلاق دی تو یہ طلاق واقع ہو گئی کیونکہ طلاق کا اختیار صرف شوہر کے پاس ہی ہوتا ہے۔
مسئلہ نمبر6:
اگر کسی نے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی،اور یہ بات اس کی بیوی نے سنی یا نہ سنی،دونوں حالتوں میں طلاق واقع ہو گئی۔
مسئلہ نمبر 7:
اگر کسی نے کہا اپنی بیوی کو،کہ اگر تم نے فلاں کام کی تو تو تم مجھ پر طلاق،تو اگر بیوی نے وہی کام کیا تو یہ بالکل طلاق ہو گئی،لیکن اگر کسی نے اپنی بیوی کو کہا کہ اگر تم نے فلاں کام کیا تو میں تجھے طلاق دے دوں گا،پھر اگر بیوی نے اس کام کو کیا اور شوہر نے طلاق نہیں دی تو یہ طلاق نہیں ہوئی۔
مسئلہ نمبر8:
اگر کسی نے اپنی بیوی کو اواز دی اور اس کو طلاقی کے نام سے مخاطب کیا،تو یہ طلاق واقع ہو گئی اگر کا اس نے مذاق میں ایسا کی ہو۔
مسئلہ نمبر 9:
اگر کسی نے اپنی بیوی کو کہا کہ میں تجھے چھوڑ رہا ہوں جاؤ اپنے گھر،تو اگر اس حالت میں شوہر کا نیت طلاق کا تھا تو یہ بالکل طلاق واقع ہو گئی،اور اگر نے طلاق کا نہ تھا تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوگئی۔
مسئلہ نمبر10:
اگر کسی نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی تو یہ بیوی اب اس پر مکمل حرام ہو گئی اور طلاق واقع ہو گئی۔
تو محترم دوستوں و احباب !
طلاق ایک مکمل پیچیدہ اور سنگین مسئلہ ہے۔کبھی بھی کسی بھی وقت گپ شپ یا مذاق میں طلاق کی الفاظ استعمال کرنے سے بالکل پرہیز کرنا چاہیے۔اکثر دفعہ لوگ اپنی بیویوں کو غصے کی حالت میں طلاق دے کر پھر پشیمان رہتے ہیں،لیکن پہلے نہیں سوچتے!
تو لہذا کبھی بھی منہ پر طلاق کے الفاظ نہ لائیں!