حج کیا ہے اور اس کے فضائل کیا ہیں؟
حج اسلام کے لازمی اور ضروری ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے،جو ہر اس مسلمان پر فرض ہے جس کے پاس اتنا مال ہو کہ جس سے وہ حج پر جا سکیں، اور واپس آسکے،اور اس کے سفر کے دوران اس کے گھر والوں کے لیے بھی کافی ہو۔
تو ایسی بندے پر حج لازم ہوتا ہے۔اور نہ کرنے پر سخت گنہگار ہوگا۔
حج کے فضائل
حج کی بہت سارے فضائل ہیں،لیکن یہاں ہم کچھ فضائل کو لکھتے ہیں:
بخاری و مسلم کی روایت میں ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ بہترین عمل کون سا ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔
پھر پوچھا گیا اس کے بعد کونسا عمل بہتر ہے؟ فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا، پھر پوچھا گیا اس کے بارے میں بہترین عمل کونسا ہے؟ فرمایا قبول شدہ حج۔
بالکل اسی طرح ایک دوسری روایت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے اللہ کے لیے حج کیا اور حج کے دوران اپنی بیوی کے ساتھ صحبت نہ کی،اور بےہودہ باتوں سے بچا، گناہ کبیرہ سے بچا،تو اسی طرح گناہوں سے پاک ہوا جیسے کہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔
اور اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک عمرہ دوسری عمرے تک کیلے گناہوں کے لیے کفارہ ہوتا ہے اور مقبول شدہ حج کا بدلہ صرف جنت ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اسلام پانچ چیزوں پر قائم ہے:
نمبر ایک کلمہ طیبہ،نمبر دو نماز قائم کرنا،نمبر تین رمضان شریف کے روزے رکھنا،نمبر چار زکوۃ ادا کرنا،نمبر پانچ حج کرنا۔
فقیہ ابوللیث سمرقندی رحمت اللہ علیہ اپنے سند کے ساتھ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منیٰ میں موجود تھے،کہ یمن سے ایک جماعت حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حج کے فضائل سے خبر کریں!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص اپنے گھر سے حج یا عمرے کی نیت سے نکلا تو اس کے ہر قدم پر گناہیں ایسے گرتے ہیں جیسے درختوں سے پتے گرتے ہیں،اور جب مدینہ منورہ آئے اور مجھ سے سلام یا مصافحہ کرتے ہیں تو ملائک اس کیساتھ سلام اور مصافحہ کرتے ہیں۔
اور پھر جب ذوالحلیفہ جائے اور وہاں غسل کرے تو اللہ تعالی اس کو گناہوں سے پاک صاف کر دیتا ہے۔
اور جب احرام کے نئے کپڑے باندھ لیتا ہے تو اللہ تعالی اس کے ساتھ نئی نیکی شروع کرتا ہے۔
اور جب یہ تلبیہ حج یعنی لبیک اللہم لبیک شروع کرتا ہے تو اللہ تعالی بھی "لبیک و سعدیک "جواب دیتا ہے،اور فرماتا ہے کہ اے میرا بندہ میں تیرے باتیں سنتا ہوں اور تیرے طرف متوجہ ہوں۔اور جب مکے کو حاضر ہو جائے طواف اور سعی کرتے ہے تو اللہ تعالی اس کے لیے نیکیوں کا سلسلہ روانہ کرتے ہیں،اور جب عرفات پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور لوگ روتے ہیں تو اللہ تعالی سات اسمانوں کی فرشتوں کے سامنے اپنے مخلوق پر فخر کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اے میرے اسمانوں کو اباد کرنے والی فرشتوں میرے بندوں کو دیکھو جتنی دور دور جگہوں سے ائی ہوئی ہے،گرد و غبار سے لیس ہیں،بال ان کی خراب ہوگئی ہیں،اور میری خدمت میں حاضر ہوئیں ہیں،تو میرا اپنی عزت اور جلال کی قسم ہو کہ میں ان نیک لوگوں کی وجہ سے بدکاروں اور بد عملوں کی گناہوں کو بھی پاک کروں گا اور ایسے پاک کروں گا کہ یہ لوگ اج اپنے ماں سے پیدا ہوگئی ہو،اور جب شیطان کو پتھر مارتے ہیں اور اپنے بالوں کو منڈواتے ہیں اور پھر طواف زیارت کرتے ہیں تو عرش کی بیج سے ایک اواز کرنے والا اواز دیتے ہیں کہ جاؤ تمہارے مغفرت ہو گیاہے پس واپس چلو اورنیک اعمال شروع کریں۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم کسی حاجی کے ساتھ ملو تو اس کو سلام کرو اور اس کے ساتھ معانقہ کرو اور اس کو کہو کہ وہ اپنے گھر کو داخل ہونے سے پہلے تیرے لیے مغفرت کی دعا کرے کیونکہ اس کا بخشش ہوا ہوتا ہے۔
جیسے حج کے فضائل زیادہ ہیں تو ویسے نہ کرنے میں بھی بہت بڑا وبال ہے،جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب کسی بندے فرہاد فرض ہو جائے اور وہ حج نہ کرے اور اس حال میں وہ وفات ہو جائے تو اگر اس کو پسند ہو تو یہودی مرے اور یا نصرانی مرے، یہ اس کی مرضی ہے (یعنی یہ مسلمانوں کہ موت پر نہیں مرا)۔
تو میرے مسلمان بھائیوں ہمیں چاہیے کہ ہم اسلام کے ہر رکن کی مکمل پابندی کے ساتھ خیال رکھیں،اور اگر ہم پر حج فرض ہو تو اس میں تاخیر بالکل نہ کرے اور جتنا جلد ہو جائے حج کو ادا کریں۔