میری امت کی علماء انبیاء بنی اسرائیل جیسے ہیں، حدیث کی حقیقت

 

کیا حدیث 'علماء اُمتی كأنبياء بنی اسرائیل' صحیح ہے؟ ایک تحقیقی جائزہ



اسلام دینِ حق ہے جو صرف وحی، عقل اور نقل کی بنیاد پر حق و باطل کو الگ کرتا ہے۔ اسی لیے اسلامی عقائد، اقوال اور اعمال میں دلیل کی حیثیت بنیادی ہوتی ہے۔ آج ہم ایک مشہور مگر متنازع حدیث کی تحقیق پیش کریں گے:

حدیث کا متن:

"علماء اُمتی كأنبياء بنی اسرائیل"
(میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی مانند ہیں)

یہ قول عوام میں بہت مشہور ہے، اور بعض خطباء و واعظین اسے نبی کریم ﷺ کی حدیث سمجھ کر بیان کرتے ہیں، مگر کیا یہ واقعی حدیث ہے؟ آئیے اس کا تحقیقی جائزہ لیتے ہیں۔

حدیث کی صحت: کیا یہ واقعی نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے؟

علمائے محدثین نے اس حدیث کو نبی کریم ﷺ سے ثابت نہیں مانا۔ ذیل میں چند معتبر محدثین کے اقوال درج کیے جا رہے ہیں:

1. امام سخاوی رحمہ اللہ:

انہوں نے کہا: "لا أصل له" یعنی "اس حدیث کی کوئی اصل نہیں۔"

2. شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ:

فرماتے ہیں: "یہ حدیث معروف نہیں، نہ ہی کسی صحیح سند سے مروی ہے۔"

3. شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ:

انہوں نے اس حدیث کو موضوع (من گھڑت) قرار دیا ہے۔ ان کی مشہور کتاب "السلسلة الضعيفة" میں یہ درج ہے۔

4. علامہ ابن قیم رحمہ اللہ:

فرماتے ہیں: "یہ حدیث بغیر سند کے ہے، اس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔"

حدیث کا مفہوم اور اس کا صحیح متبادل:

اگرچہ یہ مخصوص جملہ حدیث نہیں، لیکن علماء کی فضیلت اور ان کی حیثیت کو واضح کرنے والی کئی صحیح احادیث موجود ہیں۔

صحیح حدیث:

"العلماء ورثة الأنبياء"
(علماء انبیاء کے وارث ہیں)
سنن ابو داؤد، ترمذی، صحیح الاسناد

اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ علماء دین کا علم اور اس کی تبلیغ انبیاء کی سنت کو جاری رکھتے ہیں۔ وہ دنیاوی مال نہیں چھوڑتے بلکہ علم کا خزانہ چھوڑتے ہیں۔

علماء کی حیثیت قرآن کی روشنی میں:

قرآن پاک میں بھی علماء کی اہمیت اور ان کا مقام واضح کیا گیا ہے:

"إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ"
(اللہ سے اس کے بندوں میں صرف علماء ہی ڈرتے ہیں)
سورۃ فاطر: 28

یہ آیت اس بات کا ثبوت ہے کہ سچا علم انسان کو اللہ کا خوف عطا کرتا ہے۔

نتیجہ اور خلاصہ:

  • حدیث "علماء اُمتی كأنبياء بنی اسرائیل" نبی کریم ﷺ سے صحیح سند کے ساتھ ثابت نہیں۔
  • متعدد محدثین نے اسے ضعیف یا موضوع قرار دیا ہے۔
  • تاہم علماء کی فضیلت اور ان کی مثال کو بیان کرنے والی صحیح احادیث موجود ہیں۔
  • عوام کو چاہیے کہ صرف وہی اقوال نبی ﷺ کی طرف منسوب کریں جو صحیح احادیث سے ثابت ہوں۔

اہم ہدایت:

علمی اور مذہبی معاملات میں ہمیشہ تحقیق کریں۔ اگر کوئی قول یا حدیث سنیں، تو اس کی سند اور ماخذ پر ضرور غور کریں، خاص طور پر اگر وہ نبی کریم ﷺ کی طرف منسوب ہو۔

اختتامی دعا:

اللہ تعالیٰ ہمیں سچا علم حاصل کرنے، اسے عمل میں لانے، اور صحیح احادیث کی پہچان عطا فرمائے۔ آمین۔

Post a Comment

Previous Post Next Post