18 سال سے کم عمر کی شادی اب قانونی جرم، 3 سال قید کی سزا – صدر مملکت نے بل پر دستخط کر دیے
اسلام آباد: پاکستان میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کی سمت ایک اہم پیشرفت سامنے آئی ہے۔ صدر مملکت آصف علی زرداری نے 18 سال سے کم عمر لڑکے یا لڑکی کی شادی پر پابندی عائد کرنے والے بل پر دستخط کر دیے ہیں۔ اس قانون کے تحت اب کم عمری کی شادی قانونی جرم تصور کی جائے گی، اور خلاف ورزی کرنے پر سخت سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
قانون کی اہم شقیں:
18 سال سے کم عمر کسی بھی لڑکے یا لڑکی کی شادی کروانا قانونی جرم قرار دیا گیا ہے۔
اس قانون کی خلاف ورزی پر تین سال تک قید اور جرمانے کی سزا دی جا سکتی ہے۔
نکاح رجسٹرار، والدین، سرپرست یا نکاح خواں — جو بھی اس میں ملوث پایا گیا، اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
قانون سازی کا پس منظر:
یہ قانون بچوں کو کم عمری میں شادی جیسے عمل سے محفوظ رکھنے کے لیے نافذ کیا گیا ہے، جو ان کی تعلیم، صحت، اور ذہنی و جسمانی نشوونما کے لیے خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ کئی سالوں سے سول سوسائٹی، انسانی حقوق کی تنظیمیں، اور بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے حکومت سے مطالبہ کر رہے تھے کہ کم عمری کی شادیوں کے خلاف موثر قانون سازی کی جائے۔
صدر زرداری کے دستخط:
صدر آصف علی زرداری کے دستخط کے بعد یہ بل اب مکمل طور پر نافذ العمل ہو چکا ہے۔ اس قانون کا اطلاق پورے ملک میں ہوگا اور تمام صوبائی و ضلعی ادارے اس پر عمل درآمد کے پابند ہوں گے۔
عوامی اور سماجی ردعمل:
انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام پاکستان میں بچوں کے بہتر مستقبل کی ضمانت ہے۔ دوسری طرف، کچھ حلقے اسے معاشرتی اور مذہبی روایات سے متصادم قرار دے رہے ہیں، لیکن حکومت کا مؤقف ہے کہ بچوں کا تحفظ اولین ترجیح ہے۔
عالمی سطح پر پاکستان کا مثبت قدم:
یہ قانون پاکستان کو ان ممالک کی صف میں کھڑا کرتا ہے جو بچوں کی فلاح و بہبود اور انسانی حقوق کی پاسداری کے لیے عملی اقدامات کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی ادارے بھی اس اقدام کو مثبت قرار دے رہے ہیں۔
مذھبی و معاشرتی تضاد
اگر دیکھا جائے تو مذہب اور مذہبی لوگوں کی طرف سے اس معاملے پر سخت تنقیدات ہو رہی ہیں،کیونکہ نکاح کو عام کرنا اور جلد ہی نکاح کرنا ایک بہترین اور پسندیدہ مذہبی عمل ہے۔لیکن بہت سارے ایسے مسائل ہیں جو دور صحابہ میں بہترین اور پسندیدہ سمجھی جاتے تھے لیکن بعد میں بہت سارے نقصانات پیش ائے،تو امت کے علماء کرام نے اس پر اجماع کر کے منع قرار دی، جیسے کی خواتین کا مسجد میں نماز باجماعت ادا کرنا وغیرہ وغیرہ۔ تو اسی طرح اج کل کم عمری میں شادی کرنے کے بہت سارے مسائل پیش ائی ہیں۔ تو علماء کرام کو چاہیے کہ اس پر بھی نظر ثانی کرے اور ایک بہترین حل نکالے۔
نتیجہ:
کم عمری کی شادی ایک سنگین سماجی مسئلہ ہے جو کئی بچوں کی زندگیاں متاثر کرتا ہے۔ صدر پاکستان کی جانب سے اس بل پر دستخط ایک اہم سنگِ میل ہے، جس سے بچوں کو ایک محفوظ اور روشن مستقبل فراہم کرنے کی راہ ہموار ہو گی۔جبکہ مذہبی رو سے میرے خیال میں اس کو اتنا ناپسندیدہ نہیں مانا چاہیے،کیونکہ کم عمری میں شادی کرنے کہ اس مسئلے نے بہت سارے مسائل پیدا کی ہیں اور بہت سارے والدین کو رولائے ہیں۔
تحریر: ساجد احمد سالارزئی
ادارے کا اس تحریر سے کوئی تعلق نہیں، یہ صرف" آپ کی اواز آپ تک " کے سلسلے میں شائع کیا گیا ہے۔ شکریہ
Ken
ReplyDelete